الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبيه محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.ایک مرتبہ میں ایک شخص سے ملا جو لگ بھگ 70 برس کا تھا اور حج کے لیے اپنے ملک سے سعودی عرب آیا ہوا تھا۔ وہ متقی اور پر ہیز گار لگتا تھا۔ ہم نے باہمی دلچسپی کے کئی امور پر گفتگو کی۔ زکاۃ پر بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ وہ صرف سال بھر کی آمدنی پر زکاۃ ادا کرتا ہے کیونکہ زکاۃ صرف نئی دولت یا اضافی آمدنی پر عائد ہوتی ہے، جمع شدہ دولت پر نہیں۔ مجھے زکاۃ کے بارے میں اس کی غلط نہی پر قدرے حیرت ہوئی، تاہم میں نے دلائل سے اسے قائل کر لیا کہ زکاۃ ہر سال ہمارے خالص جمع شدہ مال پر لاگو ہوتی ہے۔ مختلف لوگوں سے وقتاً فوقتاً بات چیت کے دوران میں زکاۃ کے متعلق ان کے شکوک وشبہات اور غلط فہمیاں میں عموماً نوٹ کرتا ہوں،
جیسے:کیا زکاۃ زیر استعمال زیورات پر عائد ہوتی ہے؟ کیا والدین کو زکاۃ دی جاسکتی ہے؟
کیا والدین کو زکاۃ دی جاسکتی ہے؟
کیا ان ہیروں پر زکاۃ لگتی ہے جو بچت کے مال کے طور پر خریدے جائیں؟
کیا زکاۃ کسی مسجد کی تعمیر پر صرف کی جاسکتی ہے؟
میں نے معروف اہل علم وفضل کے فتاوی کی روشنی میں اس قسم کے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اعداد و شمار کی مثالوں سے زکاۃ کے تصور کو سمجھانا آسان ہے اور اس بات کے پیش نظر میں نے تصورِ زکاۃ کو مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ حقیر کوشش زکاۃ کے بنیادی مسائل کو واضح کرنے میں مدد دے گی۔ میں نے اس میں اپنی رائے پیش کرنے کی کوشش نہیں کی، تاہم اگر کوئی غلطی یا تسامح ہوا ہو تو میں اس کی معذرت چاہتا ہوں اور باری تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ مجھے معاف فرمائے اور میری اس کاوش کو قبولیت سے نوازے۔ اس پر نقد و تبصرہ اور تجاویز کے لیے براہ کرم رابطہ کیجیے:
sahmad111@hotmail.com
Reviews
There are no reviews yet.